پھر سورہ توبہ کے رکوع اول میں لکھا ہے کہ کہہ دے پیچھے رہے گنواروں کو کہ آگے تم کو مقابلہ کرنا ہوگا ایک سخت لڑا کے گروہ کا تم ان کو مارو گے ویا وہ مانیں گے۔ ماسواء آیت متنازعہ کے یہ اور آیات ہیں جو صاف صاف ایمان بالجبر پر ایما کرتی ہیں۔ ماسواء انکے وہ جو جہاد دفعیہ اور انتقامیہ اور انتظامیہ قرآن میں بہت سے بیان ہیں ان کا انکار ہم کو کبھی نہ تھا۔ اقسام جہاد سے یہ خاص قسم ہے جس پر ہمارا زور ہے اور جو ایمان بالجبر پر ایماء کرتی ہے۔ کیا معنے اس کے ہیں کہ یہاں تک قتل کر کہ مخالفت دین اللہ کی باقی نہ رہے اور کل دین اللہ کا ہی ہو جائے پھر کیا معنے اس کے ہیں کہ اگر تائب ہوں اور نماز و زکٰوۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ ورنہ ہر راہ سے ان کو مارو۔ پھر ان میں سے بھی اگر کوئی مشرک پناہ مانگے تو کلام اللہ کے سن لینے تک ان کو پناہ دے دو۔ اور بعد اس کے مامنہ میں پہنچا دو یعنی ایسے امن کی جگہ میں کہ غیر لوگ ان کو تکلیف نہ دیں۔ اور وہ اسلام سے پھر کر مسلمانوں کو تکلیف نہ دیں پھر کیا معنے اس کے ہیں کہ تم ان کو قتل کرو گے یا وہ تسلیم کریں گے۔ خلاصہ صاف صاف یہ کل امور ایمان بالجبر کے اوپر حکم کرتے ہیں۔
پرچہ دوم ۲ ؍جون کا بقیہ جواب:- پھر جناب نے کلام کے مجسم ہونے پر تکرار کیا ہے کلام یعنی اقنوم ثانی جب کہ پہلےؔ باب انجیل یوحنا میں ایسا لکھا ہے کہ کلام مجسم ہوا مگر مظہریت اس کی واسطے عہدہ مسیحیت کے تیس برس کی عمر میں ظاہر ہوئی۔ جب روح القدس نازل ہوا اور آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ میں اس سے راضی ہوں۔ جناب بار بار جو تثلیت فی التوحید کے مسئلہ پر اعتراض فرماتے ہیں جناب کو لازم ہے کہ پہلے توحید مطلق کو بدون صفات متعددہ کے اور کچھ ثابت کریں یا کسی شئے میں ماسوائے صفات متعددہ کے اور کچھ دکھلاویں۔ واضح رہے کہ صفت کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک قوت ہو کہ جو خاص قسم واحد پر حاوی ہو۔ یعنی جیسے روشنی صرف روشنی ہی کا کام کرتی ہے۔ وغیرہ ویسے ہی ذات جو جامع صفات ہونے کا ایک ہی کام کرتی ہے۔
یہ نہ بھولنا کہ ہم صفت کو اقنوم قرار دیتے ہیں ہمارے معنے اقنوم کے شخص معیّن کے ہیں کہ جو مجموعہ صفات ہو اور ہماری دلیل جزو صفت سے جولی گئی ہے اس سے ایماء ہماری یہ ہے کہ جو