تو پہلا حکم جو لڑائی کے لئے نازل ہوا وہ یہ تھا۔ ۱؂ (س۱۷ر۱۳)یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے قتل کے لئے مخالفوں نے چڑھائی کی۔ اس وجہ سے اجازت دی گئی کہ ان پر ظلم ہوا اور خدا مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطنوں سے ناحق نکالے گئے اور ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا جو ہمارا رب اللہ ہے دیکھئیکہ یہ پہلی آیت ہے جس سے سلسلہ لڑائیوں کا شروع ہوا اورپھر اس کے بعد خداتعالیٰ نے اس حالت میں کہ مخالف لڑائی کرنے سے باز نہ آئے یہ دوسری آیت نازل فرمائی۔۲؂یعنی جو لوگ تم سے لڑتے ہیں ان کا مقابلہ کرو اور پھر بھی حد سے مت بڑھو کیونکہ خداتعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور پھر فرمایا۔ ۳؂یعنی قتل کرو انہیں جہاں پاؤ اور اسی طرح نکالو جس طرح انہوں نے نکالا۔ پھر فرمایا۔ ۴؂ یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جاوے اور دین کی روکیں اٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے۔ اور پھر فرمایا۔ ۵؂ یعنی شہر حرام میں قتل تو گناہ ہے لیکن خداتعالیٰ کی راہ سے روکنا اور کفر اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو مسجد حرام سے خارج کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہونا قتل سے بڑھ کر ہے اور ہمیشہ قتل کے لئے یہ لوگ مقابلہ کریں گے۔ تا اگر ممکن ہو تو تمہیں دین حق سے پھیر دیں۔ اور پھر فرمایا۔ ۶؂ الخ۔یعنی اگر اللہ تعالیٰ بعض کے شر کو بعض کی تائید کے ساتھ دفع نہ کرتا۔ تو زمین فاسد ہو جاتی اور پھر فرماؔ یا۔ ۷؂ یعنی اگر تم ان کا