کام ہوتے ہیں اور انہیں سے اولاد ہوتی ہے۔ پس اس سے ثابت ہے کہ کتاب کے نزول سے پہلے مواخذہ قائم نہیں ہوتا اور یہ تو آپ اقرار کر چکے ہیں کہ یہ تمام احکام بندہ کے فائدہ کیلئے ہوتے ہیں اور اس بات کا آپ نے کوئی صحیح جواب نہیں دیا کہ جس حالت میں ان تمام امور میں بندہ کا فائدہ ہی متصور ہے اور خداتعالیٰ کے وعد اور وعید سے پہلے مواخذہ بھی نہیں ہوتا۔ تو پھر جب کہ بڑے آسان طریق سے یہ طریق اس طرح پر چل سکتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کے موافق توبہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرے تو پھر کسی دوسرے نامعقول طریق کی کیا حاجت ہے اب بقیہ اس کا کسی دوسرے وقت میں بیان کیا جاوے گا اس وقت ہم جہاد کے بارہ میں جو باقی حصہ ہے بیان کرتے ہیں او روہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں جہاد کی بنا صرف امن قائم کرنے اور بتوں کی شان توڑنے اور حملہ مخالفانہ کے روکنے کے لئے ہے اور یہ آیت یعنی ۱ آپ کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور کونسا جبر اس سے ثابت ہوسکتا ہے اس کے معنے تو صاف ہیں کہ ان بے ایمانوں سے لڑو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے یعنی عملی طور پر فسق فجور میں مبتلا ہیں اور حرام کو حرام نہیں جانتے اور سچّائی کی راہیں اختیار نہیں کرتے جو اہل کتاب میں سے ہیں جب تک کہ وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے دیں اور وہ ذلیل ہوں۔ دیکھو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے اس سے تو یہی ثابت ہواؔ کہ جو اپنی بغاوتوں کی وجہ سے حق کے روکنے والے ہیں اور ناجائز طریقوں سے حق پر حملہ کرنے والے ہیں ان سے لڑو اور ان سے دین کے طالبوں کو نجات دو۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ یہ لڑائی ابتداءً بغیر ان کے کسی حملہ کے ہوئی تھی۔ لڑائیوں کے سلسلہ کو دیکھنا ازبس ضروری ہے اور جب تک آپ سلسلہ کو نہ دیکھو گے اپنے تئیں عمداً یا سہواً بڑی غلطیوں میں ڈالو گے۔ سلسلہ تو یہ ہے کہ اول کفار نے ہمارے نبی صلعمکے قتل کا ارادہ کرکے آخر اپنے حملوں کی وجہ سے ان کو مکہ سے نکال دیا۔ اور پھر تعاقب کیااور جب تکلیف حد سے بڑھی