آپ کی توریت و انجیل سے ایک فہرست مرتب کر کے پیش کرسکتے ہیں مگر ان فضول اور کج بحثیوں سے ہم کو سخت نفرت ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس مسئلہ میں بلاتفاوت توریت و انجیل اور قرآن کا لفظاً و معنیً پورا اتفاق ہے اور نزاع ایسے کھلے کھلے اتفاق میں ایک شرمناک جھگڑا ہے۔ دیکھئے کہ توریت کے لفظ یہ موجود ہیں کہ۔ ’’میں نے فرعون کا دل سخت کر دیا‘‘۔ اب آپ ان لفظوں کو کاٹ کر اور نئے لفظ بنا کر یہ فرماتے ہیں کہ ’’سخت نہیں کیا بلکہ اس کو شریر ہونے دیا‘‘۔ حالانکہ پھر بھی مال ایک جا ٹھہرتا ہے۔ ایک شخص کے رو برو ایک بچہ کوئیں کے قریب بیٹھا ہے اور گرنے کو ہے اور وہ اس کو بچا سکتا تھا۔ اور اس نے نہ بچایا تو کیا اس کا قصور نہیں۔ بہرحال جب آپ لفظوں پر گرفت کرتے ہیں کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم بھی گرفت کریں اگر قرآن کے لفظوں پر پکڑ ہوسکتی ہے تو ایسے ہی لفظ توریت میں بھی موجود ہیں۔ خاص کر امثال کا حوالہ آپ کی توجہ کے لائق ہے جس میں صاف لکھا ہے۔ ’’میں نے شریروں کو برے دن کے لئے بنایا‘‘۔ اب آپ یہ لکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کہتا ہے کہ۔ ’’میں نے شریروں کو اپنے لئے بنایا‘‘۔ دیکھئےؔ کجا برے دنوں کے لئے اور کجا اپنے لئے۔ یہ اگر تحریف نہیں تو اورکیا ہے۔ اور پھر آپ نے خداتعالیٰ کی مالکیت پر بے جا بحث شروع کرکے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا ہے۔ آپ کو واضح ہو کہ خداتعالیٰ اگرچہ قدوس ہے لیکن بغیر نازل کرنے اپنے قانون کے کسی کو مواخذہ نہیں کرتا اور یہ بھی بات ہے کہ وہ بجز اس کے کہ بالذات یہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص اس سے شرک نہ کرے اور کوئی اس کا نافرمان نہ ہو اور کوئی اس کے وجود سے انکار نہ کرے اور اقسام کے معاصی کو حقیقی معصیت بجز احکام نازل کرنے کے نہیں قرار دیتا۔ دیکھئے حضرت آدم کے وقت میں خداتعالیٰ اس بات پر راضی ہوگیا کہ حقیقی ہمشیروں کا ان کے بھائیوں سے نکاح ہو جائے اور پھر مختلف زمانوں میں کبھی شراب پینے پر راضی ہوا کبھی اس کی ممانعت کی اور کبھی طلاق دینے پر راضی ہوا اور کبھی طلاق کی ممانعت کی اور کبھی انتقام پر راضی ہوا اور کبھی انتقام سے ممانعت کی۔ اور یہ تو انسان کی نوع میں ہے۔ حیوانات کی نوع میں اگر دیکھا جائے تو ماں اور بہن وغیرہ میں کچھ بھی فرق نہیں۔ برابر اور ہر طرح سے خداتعالیٰ کی نظر کے سامنے ناجائز