اعتقاد رکھا جائے کہ اسرار نبوت کو اب صرف بطور ایک گذشتہ قصّہ کے تسلیم کرنا چاہئے۔ جن کا وجود ہماری نظر کے سامنے نہیں ہے اور نہ ہونا ممکن ہے اور نہ ان کا کوئی نمونہ موجود ہے ۔ بات یوں نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اسلام زندہ مذہب نہ کہلا سکتا بلکہ اور مذہبوں کی طرح یہ بھی مُردہ مذہب ہوتا اور اس صورت میں اعتقاؔ د مسئلہ نبوت بھی صرف ایک قصہ ہوتا جس کا گذشتہ قرنوں کی طرف حوالہ دیا جاتا۔ مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ بقیہ حاشیہ۔ کہ وہ اس چشمہ کی مانند ہے کہ جو زمین سے جوش مارتا ہے بلکہ ہر جگہ یہی مثال پیش کی کہ وہ اُس بارش کی مانند ہے کہ جو آسمان سے نازل ہوتی ہے ۔ اور اگر سیّد صاحب لکھنے کے وقت کسی صاحب حال سے پوچھ لیتے کہ وحی اللہ کیاشے ہے اور کیونکر نازل ہوتی ہے تو تب بھی اس لغزش سے بچ جاتے ۔ اس ٹھوکر سے سیّدصاحب نے ایک جماعت کثیر ہ مسلمان کو تباہ کر دیا اور قریب قریب الحاد اور دہریت کے پہنچا دیا اور وحئ نبوت کی عزت کو کھوکر اس فطرتی ملکہ تک محدود کر دیا جس میں کافر اور بے ایمان بھی شریک ہیں۔ اس وقت میں محض لِلّٰہ اپنی ذاتی شہادت سیّد صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں شاید خدا تعالےٰ اُن پر فضل کرے ۔ سو اے عزیز سیّد !مجھے اس جل شانہ کی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے دل پر ایسی گِرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر ۔ میں ہر روز دیکھتاہوں کہ جب مکا لمۂ الٰہیہ کا وقت آتا ہے تو اوّل یک دفعہ مجھ پر ایک ربودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہوجاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش گوبگفتن باقی ہوتا ہے مگر اُس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تما م وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اُس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اُس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں بلکہ اُسکا ہے جب یہ حالت ہوجاتی ہے تو اُس وقت سب سے پہلے خدا تعالیٰ دل کے اُن خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتاہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہوتا ہے تب ایک عجیب کیفیت سے وہ خیالات یکے بعد دیگرے نظر کے سامنے آتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال مثلاً زید کی نسبت دل میں آیا کہ وہ فلاں مرض سے صحت یاب ہوگا یا نہ ہوگا تو جھٹ اُس پرایک ٹکڑا کلامِ الٰہی کا ایک شعاع کی طرح گِرتا ہے اور بسا اوقات اُس کے گرنے کے ساتھ تمام بدن ہل جاتا ہے پھر وہ مقدمہ طے ہو کر دوسرا خیال سامنے آتا ہے ادھر وہ خیال نظر کے سامنے کھڑا ہوا اور ادھر ساتھ ہی ایک ٹکڑا الہام کا اُس پر گِرا جیسا کہ ایک تیر انداز ہر یک شکار کے نکلنے پر تیر مارتا جاتا ہے اور عین اس وقت میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ خیالات کا ہمارے ملکۂ فطرت سے پیدا ہوتا ہے اور کلام جو اُس پر گرتا ہے وہ اوپر سے نازل ہوتا ہے