اس اُمت کیلئے کھلی ہے ایساہرگز نہیں ہو سکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے اور ایک شخص جو دنیا کا کیڑا اور دُنیا کے جاہ و جلال اور ننگ وناموس میں مبتلا ہے وہی وارث علم نبوّت ہو کیونکہ خداتعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ بجز مطہرین کے علم نبوت کسی کو نہیں دیا جائے گا بلکہ یہ تو اس پاک علم سے بازی کرنا ہے کہ ہر ایک شخص باوجود اپنی آلودہ حالت کے وارث النبی ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی ایک سخت جہالت ہے کہ ان وارثوں کے وجود سے انکار کیا جائے اور یہ
بقیہ حاشیہ۔ اس پر شہادت دے رہی ہے ۔ یہ بات تو ہم دوبارہ یاد دلادیتے ہیں کہ گو کسی قسم کا القا ہو الفاظ ہمیشہ ساتھ ہونگے مثلاً ایک شاعر جو ایک مصرعہ کے لئے دوسرا مصرعہ تلاش کر رہا ہے تو جب اس کے ذہن پر منجانب اللہ کوئی القاء ہوگا تو الفاظ کے ساتھ ہی ہوگا۔
اب جبکہ یہ بات پختہ طور پر فیصلہ پاگئی کہ حکماء اور عرفاء اور شعراء کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی القاء ہوتا ہے اور وہ بھی الہام متلو ہی ہوتا ہے اور ان میں سے راستبازوں کو راستی کااور بدوں کوبدی کا ایک ملکہ عطا کیا جاتا ہے اور مناسب حال اس ملکہ کے وقتاًفوقتاً ان کو الہام ہوتا رہتا ہے مثلاً جسؔ نے ریل ایجاد کی اس کو بھی القاء ہی ہؤاتھا او رجو تار برقی کا موجد گزرا ہے وہ بھی ان معنوں کر کے ملہم ہی تھا تو وہی اعتراض جس کا ذکر ہم کرچکے ہیں سیّد صاحب پر وارد ہوگا ۔ اگرسیّد صاحب یہ جواب دیں کہ درحقیقت نفسِ القا میں تو انبیاء اور حکماء بلکہ کافر اور مومن برابر ہیں مگر فرق یہ ہے کہ انبیاء کا القاء ہمیشہ صحیح ہوتا ہے تو ایسے جواب میں سیّد صاحب کو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ وحی نبوت کفار کے الہام سے کوئی ذاتی امتیاز نہیں رکھتی صرف یہ زائد امر ہے کہ انبیاء کی وحی غلطی سے پاک ہوتی ہے اور ارسطو اور افلاطون وغیرہ حکماء کی وحی غلطی سے پا ک نہیں تھی لیکن یہ دعویٰ بے دلیل ہے بلکہ سراسر تحکم ہے کیونکہ اس صورت میں ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ وہ حصّہ کثیر حکماء کے مواعظ اور نصائح اور اخلاقی باتوں کا جو غلطیوں سے پاک اور قرآن کے موافق ہے اُس کو بلاشبہ کلام الٰہی سمجھیں اور فرقان حمید کے برابر قرار دے دیں اور اس کی وحی متلو ہونے پر ایمان لاویں اور دوسرا حصّہ جس میں غلطی ہو اس کو اُسی طرح اجتہادی غلطیوں کی َ مد میں داخل کر دیں جیسا کہ انبیاء سے بھی کبھی اجتہادی غلطی ہوجاتی ہے اور پھر اس اصول کے لحاظ سے ایسے حکماء بلکہ کفار کو بھی نبی سمجھ لیں۔ اب ظاہر ہے کہ درحقیقت یہ ایسا خیال ہے کہ قریب ہے کہ سیّد صاحب کا ایمان اس سے ضائع ہوجائے بلکہ شاید کسی موقعہ پر نیوتن وغیرہ حکماء کی وحی کو قرآن کی وحی سے اعلیٰ سمجھنے لگیں ۔ افسوس کہ اگر سیّد صاحب قرآن کے معنے سمجھنے کے لئے قرآن کو ہی معیار ٹھہراتے تو اس ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچ جاتے ۔ قرآن نے کسی جگہ اپنی وحی کی یہ مثال پیش نہیں کی