تمام معیاروں پر حاوی ہے کیونکہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتاہے اور بغیر نبوّت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اُس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اُس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ اُس پر وہ سب امور بطور انعام و اکرام کے وارد ہوجاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں۔ سو اس کا بیان محض اٹکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے۔ اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ
بقیہ حاشیہ۔ اس تعلیم یابی کے بعد وہ ملکہ جو تخم کی طرح چھپا ہو ا تھا بھڑک اُٹھتا ہے اور طرح طرح کی باریکیاں اس علم کی اُس کوسُوجھتی ہیں اور جو کچھ اس فن کے متعلق نئے نئے امور من جانب اللہ اسکے دل میں پیدا ہوتے ہیں اگر اُن کا الہام اور القا نام رکھیں تو کچھ بعید نہیں ہوتا کیونکہ بلاشبہ وہ تمام عمدہ باتیں جن سے انسانوں کو نفع پہنچتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں ڈالی جاتی ہیں جیسا کہ اللہ جلّ شانہ بھی درحقیقت اسی کی طرف اشارہ فرما کر کہتا ہے ۱ یعنی بُری باتیں اور نیک باتیں جو انسانوں کے دلوں میں پڑتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی الہام ہوتی ہیں اچھا آدمی اپنی اچھی طبیعت کی وجہ سے اس لائق ہوتا ہے کہ اچھی باتیں اس کے دل میں پڑیں اور بُرا آدمی اپنی بُری طبیعت کی وجہ سے اس لائق ٹھہرتا ہے کہ بُرے خیالات اور بد اندیشی کی تجویزیں اُس کے دل میں پید اہوتی رہیں اور درحقیقت نیک انسان اس قسم کے الہامات کے حاصل کرنے کے لئے فطرتاََ ایک نیک ملکہ اپنے اندر رکھتا ہے اور بُرا انسان فطرتاََ ایک بُرا ملکہ رکھتا ہے چنانچہ اسی ملکہ فطرتی کی و جہ سے بہت سے لوگ اچھی اور بُری تالیفیں اور پاک اور ناپاک ملفوظات اپنی یادگار چھوڑ گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء کی وحی کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ بھی درحقیقت ایک ملکہ فطرت ہے جو اس قسم کے القاء سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے جس کی تفصیل ابھی بیان ہوئی ہے اگر صرف اتنی ہی بات ہے تو حقیقت معلوم شد کیونکہ انبیاء کی وحی کو صرف ایک ملکۂ فطرت قرار دے کر پھر انبیاء اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں میں مابہ الامتیاز قائم کرنا نہایت مشکل ہے ۔ شاید سیّد صاحب اس جگہ یہ فرماویں کہ ہم وحی متلو کے قائل ہیں یعنی قرآن کریم بالفاظ وحی ہے مگر میں سیّد صاحب کی اس حکمت عملی کو خوب سمجھتا ہوں وہ اس وحی متلو کے ہرگز قائل نہیں جس کے ہم لوگ قائل ہیں ظاہر ہے کہ یوں تو کوئی القا الفاظ کے بغیر نہیں ہوتا اور ایسے معانی جو الفاظ سے مجرد ہوں ذہن میں آہی نہیں سکتے لیکن پھر خود قرآن اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم میں بھی ایک فرق ہے اور اُسی فرق کی بنا پر حدیث کے الفاظ کو اس چشمہ سے نکلا ہؤا قرار نہیں دیتے جس چشمہ سے قرآن کے الفاظ نکلے ہیں گو عام القا اور الہام کا مفہوم مدّنظر رکھ کر حدیث کے الفاظ بھی من جانب اللہ ہیں چنانچہ آیت۲