گزرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں ۔تب تک مناسب ہے کہ گستاخی اور تکبّر کی جہت سے مفسّرالقرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہوگی جس سے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مَنْ فَسَّرَ الْقُرْاٰنَ بِرَأْیِہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ یعنی جس نے صرف اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کی۔ اور اپنے خیال میں اچھی کی۔ تب بھی اُس نے بُری تفسیر کی ۔ پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کردیئے ہیں کہ چنداں لغات عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں ہاں موجب زیادتِ بصیرت بے شک ہے بلکہ بعض اوقات قرآن کریم کے اسرار مخفیہ کی طرف لغتؔ کھودنے سے توجہ پیدا ہوجاتی ہے اور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے ۔ چھٹا معیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے سلسلہ جسمانی ہے۔ کیونکہ خداوند تعالےٰ کے دونوں سلسلوں میں بکلّی تطابق ہے ۔ ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفاتِ محدثین* ہیں اور یہ معیار گویا * حاشیہؔ معیار ہفتم ۔سیّد صاحب نے اپنی کسی کتاب میں وحی کو معیار صداقت نہیں ٹھہرایا اور نہ ٹھہرانا چاہتے ہیں اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ وحی کو خواہ وہ وحئ نبوت ہو یا وحئ ولایت نظر عزت سے نہیں دیکھتے بلکہ اُس کو صرف ملکۂ فطرت خیال کرتے ہیں سو اُن کی اس رائے کی نسبت بھی اس جگہ کسی قدر بیان کرنا قرین مصلحت ہے سو واضح ہو کہ سیّد صاحب کی یہ بڑی غلط اور سخت فتنہ انداز اور حق سے دُور ڈالنے والی رائے ہے کہ وحی اللہ کو صرف ملکۂ فطرت خیال کرتے ہیں ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ انسان کی فطرت میں کئی قسم کے ملکات ہوتے ہیں اور تمام ملکات اس قسم کے ہیں کہ ایک کی طرز اور وضع دوسرے کی طرز اور وضع پر شاہد ہے مثلاََ بعض کی فطرت علمِ حساب اور ہندسہ سے ایک مناسبت رکھتی ہے اور بعض کی علم طب سے اور بعض کی علم منطق اور کلام سے لیکن خودبخود یہ استعداد مخفیہ کسی کو محاسب اور مہندس یا طبیب اور منطقی نہیں بناسکتی بلکہ ایسا شخص تعلیم استاد کا محتاج ہوتا ہے ، اور پھر دانا استاد جب اس شخص کی طبیعت کو ایک خاص علم سے مناسبت دیکھتا ہے تو اس کے پڑھنے کی اس کو رغبت دیتا ہے اسکے مناسب یہ شعر ہے کہ ہر کسے را بہر کارے ساختند میل طبعش اندران انداختند