ایسی نہیں ہے جو کم سے کم دس یا بیس شاہد اس کے خود اُسی میں موجود نہ ہوں ۔ سو اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک معنے کریں تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ان معنوں کی تصدیق کیلئے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں ۔ اگر دوسرے شواہد دستیاب نہ ہوں بلکہ ان معنوں کے دوسری آیتوں سے صریح معارض پائے جاویں تو ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ معنی بالکل باطل ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو۔ اور سچّے معنوں کی یہی نشانی ہے کہ قرآن کریم میں سے ایک لشکر شواہد بینہ کا اس کا مصدق ہو۔ دوسرا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تفسیر ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کے معنے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم تھے ۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلا توقف اور بلادغدغہ قبول کرؔ ے نہیں تو اُس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہوگی ۔ تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے ۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علمِ نبوت کے پہلے وارث تھے اور خدا تعالیٰ کا اُن پر بڑا فضل تھا اور نصرتِ الٰہی اُن کی قوتِ مدرکہ کے ساتھ تھی۔ کیونکہ اُن کا نہ صرف قال بلکہ حال تھا۔ چوتھا معیار خود اپنا نفسِ مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے۔ کیونکہ نفسِ مطہرہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے ۔اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے لَا ۱؂ یعنی قرآن کریم کے حقائق صرف اُن پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں۔ کیونکہ مطہر القلب انسان پر قرآن کریم کے پاک معارف بوجہ مناسبت کھل جاتے ہیں اور وہ اُن کو شناخت کرلیتا ہے اور سُونگھ لیتا ہے۔ اور اُس کا دل بول اُٹھتا ہے۔ کہ ہاں یہی راہ سچّی ہے۔ اور اُس کا نورِ قلب سچائی کی پرکھ کیلئے ایک عمدہ معیار ہوتا ہے ۔ پس جب تک انسان صاحبِ حال نہ ہو اور اِس تنگ راہ سے