قابل تغیر و تبدیل نہیں کیونکہ تقدیر کے مفہوم کو اختیار مقدّر لازم پڑا ہؤا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جن خواص پر خدا تعالیٰ کا کچھ بھی اختیار باقی نہیں رہا۔ تو پھر اُن خواص کو اُس کی تقدیر کیونکر کہنا چاہیئے اور اگر اختیار ہے تو پھر امکان تبدیل باقی ہے ۔غرض سیّد صاحب نے اس دوسرے رسالہ میں مقدّر حقیقی کی حکومت تمام چیزوں کے سر پر سے ایسی اُٹھا دی ہے کہ وہ اپنے خواص میں (بقول سیّد صاحب ) تابع مرضی مالک نہیں رہیں۔ بلکہ ایکٹ مزارعان کی پانچویں دفعہ کے موروثیوں کے لئے جو حقوق انگرؔ یزوں نے قائم کئے ہیں۔ یعنی یہ کہ مالک کو کسی قسم کے تصرف کا اُن پر اختیار نہیں ہوگا۔ اسی قسم کے موروثی سیّد صاحب نے بھی تمام چیزوں آگ وغیرہ کو ٹھہرا دیا ہے۔ بلکہ سیّد صاحب کے قانون میں انگریزوں کے قانون سے زیادہ تشدّد ہے کیونکہ انگریزوں نے پانچویں دفعہ کے موروثی کے اخراج کے لئے ایک صورت قائم بھی کر دی ہے اور وہ یہ کہ جب موروثی ایک سال تک لگان واجب کا ایک حصّہ خواہ ۲؍(دو آنہ) بھی ہوں ادا نہ کرے تو خارج ہوسکتا ہے۔ مگر سیّد صاحب نے تو ہر حال میں حقوق مالک کو تلف کردیا۔ اور یہ ظلم عظیم ہے ۔
اور سیّد صاحب نے جو اپنے دوست حریف سے تفسیر قرآن کریم کا معیار مانگا ہے سو میں نے مناسب سمجھا کہ اس جگہ بھی سیّد صاحب کی کسی قدر میں ہی خدمت کردوں کیونکہ بھولے کو راہ بتانا سب سے پہلے میرا فرض ہے ۔ سو جاننا چاہیئے کہ سب سے اوّلؔ معیارتفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہیں ۔ یہ بات نہایت توجّہ سے یاد رکھنی چاہیئ کہ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لئے دوسرے کا محتاج ہو ۔ وہ ایک ایسی متناسب عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ ہلانے سے تمام عمارت کی شکل بگڑ جاتی ہے ۔ اس کی کوئی صداقت