ناظرین باانصاف میرے اس بیان کو غور سے پڑھ کر سمجھؔ سکتے ہیں کہ میں نے سیّد صاحب کی غلط فہمی کا ثبوت کافی دے دیا ہے۔ ماسوا اس کے اگر سیّد صاحب اب بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آویں تو ایک دوسرا طریق بھی اُن پر حجت پورا کرنے کے لئے لکھا گیا ہے۔ اگر وہ طالب حق ہونگے تو اعراض نہیں کریں گے ۔ اور سیّد صاحب کی دوسری کتاب جسکا نام تحریر فی اصول التفسیر ہے۔ اُن کی اس کتاب سے بالکل مناقض اور مغائر پڑی ہوئی ہے ۔ گویا سیّد صاحب نے کسی مدہوشی کی حالت میں یہ دونوں رسالے لکھے ہیں ۔کیونکہ سیّد صاحب استجابت دُعا کے رسالہ میں تو تقدیر کو مقدّم رکھتے ہیں۔ اور اسباب عادیہ کو گویا ہیچ خیال کرتے ہیں اور اسی بنا پر استجابت دُعا سے انکار کرتے ہیں۔ کیونکہ دُعا منجملہ اسباب عادیہ کے ہے۔ جس پر ایک لاکھ سے زیادہ نبی اور کئی کروڑ ولی گواہی دیتا چلا آیا ہے* اور نبیوں کے ہاتھ میں بجُز دُعا کے اور کیا تھا۔ : قطب ربانی و غوث سبحانی سیّد عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے جس قدر اپنی کتاب فتوح الغیب میں کامل کی توجّہ اوردُعا کا اثر اپنے تجارب کے رو سے لکھا ہے۔ ہم عام فائدہ کے لئے وہ عبارتیں معہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں ۔ اس تحریر سے مطلب یہ ہے کہ ہر ایک فن میں اسی شخص کی شہادت معتبر سمجھی جاتی ہے جو اس فن کا محقق ہوتا ہے ۔ پس اس بنا پر استجابت دُعاء کی فلاسفی اس شخص کو سچے طور پر معلوم ہوسکتی ہے جس کو خدا وند تعالےٰ سے سچّے تعلقات صدق اور محبت کے حاصل ہوں ۔ پس سیّد احمد خان صاحب سے اس پاک فلاسفی کا دریافت کرنا ایسا ہے جیسے ایک بَیطار سے کسی انسان کی مرض کا علاج پوچھنا۔ سیّد صاحب اگر کسی دنیوی گورنمنٹ کے تعلقات اُن کی رعایا کے ساتھ بیان کریں تو بلا شبہ وہ اس بات کے لائق ہیں۔ مگر خدا تعالےٰ کی باتیں خدائی لوگ جانتے ہیں۔ اور وہ عبارت یہ ہے :۔ فاجعل انت جملتک واجزاء ک اصنامًا مع سائر الخلق ولا تطع شیءًا من ذالک ولا تتبعہ جملۃ فتکون کبریتًا احمر فلا تکاد تری فحینئذٍ تکون وارؔ ث کل نبی و رسول و بک تختم الولایۃ و تنکشف الکروب و بک تسقی الغیوث و بک تنبت الزروع و بک تدفع البلایا والمحن عن الخاص والعام واھل الثغور و تقلبک ید القدرۃ ویدعوک لسان الازل وتنزل منازل من سلف من اولی العلم و یرد علیک التکوین و خرق العادات وتؤمن علی الاسرار والعلوم اللّدنیۃ وغرائبھا ۔ ترجمہ :۔ یعنی اگر تو خدا تعالیٰ کا مقبول بننا