زہر جو بظاہر خوبصورت معلوم ہوتی ہے اس کو کھلا دے تو یہ سوال اس بچہ کا ہرگز اُس کی ماں پورا نہیں کرے گی۔ اور اگر پورا کردیوے اور اتفاقاََ بچہ کی جان بچ جاوے لیکن کوئی عضو اس کا بے کار ہو جاوے تو بلوغ کے بعد وہ بچہ اپنی اس احمق والدہ کا سخت شاکیؔ ہوگا اور بجز اسکے اور بھی کئی شرائط ہیں کہ جب تک وہ تمام جمع نہ ہوں اُسوقت تک دُعا کو دُعا نہیں کہہ سکتے۔ اور جب تک کسی دُعا میں پوری روحانیت داخل نہ ہو اور جس کے لئے دعا کی گئی ہے اور جو دُعا کرتا ہے ان میں استعدادِ قریبہ پیدا نہ ہو تب تک توقع اثرِدعا امید موہوم ہے۔ اور جب تک ارادۂ الٰہی قبولیت دُعا کے متعلق نہیں ہوتاتب تک یہ تمام شرائط جمع نہیں ہوتیں۔ اور ہمتیں پوری توجّہ سے قاصر رہتی ہیں۔ سیّد صاحب اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ دارِ آخرت کی سعادتیں او رنعمتیں اور لذّتیں اور راحتیں جن کی نجات سے تعبیر کی گئی ہے ایمان او رایمانی دُعاؤں کا نتیجہ ہیں پھر جبکہ یہ حال ہے تو سیّد صاحب کو ماننا پڑا کہ بلاشبہ ایک مومن کی دُعائیں اپنے اندر اثر رکھتی ہیں اور آفات کے دُور ہونے اور مرادات کے حاصل ہونے کا موجب ہوجاتی ہیں کیونکہ اگر موجب نہیں ہوسکتیں تو پھر کیا وجہ کہ قیامت میں موجب ہوجائیں گی ۔ سوچو اور خوب سوچو کہ اگر درحقیقت دُعا ایک بے تاثیر چیز ہے اور دُنیا میں کسی آفت کے دور ہونے کا موجب نہیں ہو سکتی تو کیا وجہ کہ قیامت کو موجب ہوجائے گی؟ یہ بات تو نہایت صاف ہے کہ اگر ہماری دُعاؤں میں آفات سے بچنے کے لئے درحقیت کوئی تاثیر ہے تو وہ تاثیر اس دُنیا میں بھی ظاہر ہونی چاہیئے تا ہمارا یقین بڑھے اور امید بڑھے اور تا آخرت کی نجات کے لئے ہم زیادہ سرگرمی سے دُعائیں کریں ۔ اور اگر درحقیقت دُعا کچھ چیز نہیں صرف پیشانی کا نوشتہ پیش آنا ہے تو جیسا دنیا کی آفات کیلئے بقول سیّد صاحب! دُعا عبث ہے اسی طرح آخرت کے لئے بھی عبث ہوگی اور اس پر اُمید رکھنا طمع خام۔اب میں اس بارے میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ