اور ظاہر ہے کہ دوسری دعاؤں میںیہ وعید نہیں۔ بلکہ بعض اوقات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو دُعا مانگنے پر زجر و توبیخ کی گئی ہے چنانچہ ۱؂اس پر شاہد ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر ہر دُعا عبادت ہوتی تو حضرت نوح علیہ السلام کو لَا تَسْءَلْنِ۲؂ کا تازیانہ کیوں لگایا جاتا ! اور بعض اوقات اولیا اور انبیا دُعاکرنے کو سوء ادب سمجھتے رہے ہیں اور صلحاء نے ایسی دُعاؤں میں استفتاء قلب پر عمل کیا ہے یعنی ؔ اگر مصیبت کے وقت دل نے دُعا کرنے کا فتویٰ دیا تو دُعا کی طرف متوجہ ہوئے اور اگر صبر کے لئے فتویٰ دیا تو پھر صبر کیااور دُعا سے مُنہ پھیر لیا ۔ ماسوا اس کے اللہ تعالےٰ نے دوسری دُعاؤں میں قبول کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ صاف فرمادیا ہے کہ چاہوں تو قبول کروں اور چاہوں تو ردّ کروں جیسا کہ یہ آیت قرآن کی صاف بتلا رہی ہے اور وہ یہ ہے ۳؂ سورۃ الانعام الجزء نمبر۷ اور اگر ہم تنزّلًا مان بھی لیں کہ اس مقام میں لفظ اُدْعُوْسے عام طور پر دُعا ہی مُرادہے تو ہم اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں دیکھتے کہ یہاں دُعا سے وہ دُعا مُراد ہے جو بجمیع شرائط ہو۔ اور تمام شرائط کو جمع کرلینا انسان کے اختیار میں نہیں جب تک توفیق ازلی یاور نہ ہو اور یہ بھی یاد رہے کہ دُعا کرنے میں صرف تضرع کافی نہیں ہے۔ بلکہ تقویٰ اور طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ جو شخص اپنے لئے دُعا کرتاہے یا جس کے لئے دُعا کی گئی ہے اُسکی دنیا اور آخرت کیلئے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحت الٰہی بھی نہ ہو۔ کیونکہ بسا اوقات دُعا میں اور شرائط تو سب جمع ہو جاتے ہیں۔ مگر جس چیز کو مانگا گیا ہے وہ عند اللہ سائل کے لئے خلاف مصلحت الٰہی ہوتی ہے۔ اور اس کے پُورا کرنے میں خیر نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کسی ماں کا پیارا بچہ بہت الحاح اور رونے سے یہ چاہے کہ وہ آگ کا ٹکڑا یا سانپ کا بچہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دے۔ یا ایک