قبولیت اُسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادۂ الٰہی اُس کے قبول کرنے کا ہے ۔ خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھا ہے ۔ پس سیّد صاحب کی سخت غلطی ہے کہ وہ نظامِ جسمانی کا تو اقرار کرتے ہیں مگر نظامِ روحانی سے منکر ہو بیٹھے ہیں! بالآخر مَیں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سیّد صاحب اپنے اس غلط خیال سے توبہ نہ کریں اور یہ کہیں کہ دُعاؤں کے اثر کا ثبوت کیا ہے۔ تو مَیں ایسی غلطیوؔ ں کے نکالنے کے لیے مامور ہوں ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دُعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سیّد صاحب کو اطلاع دونگا۔ اور نہ صرف اطلاع بلکہ چھپوا دونگا۔ مگر سیّد صاحب ساتھ ہی یہ بھی اقرار کریں کہ وہ بعد ثابت ہوجانے میرے دعویٰ کے اپنے اس غلط خیال سے رجوع کریں گے ۔ سیّد صاحب کا یہ قول ہے کہ گویا قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کاوعدہ فرمایا ہے حالانکہ تمام دُعائیں قبول نہیں ہوتیں یہ اُنکی سخت غلط فہمی ہے۔اور یہ آیت۱؂ اُن کے مدعا کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔کیونکہ یہ دُعا جو آیت ۲؂ میں بطور امر کے بجالانے کے لئے فرمائی گئی ہے۔ اس سے مراد معمولی دُعائیں نہیں ہیں۔بلکہ وہ عبادت ہے جو انسان پر فرض کی گئی ہے کیونکہ امر کا صیغہ یہاں فرضیت پر دلالت کرتاہے۔ اور ظاہر ہے کہ کُل دُعائیں فرض میں داخل نہیں ہیں۔ بلکہ بعض جگہ اللہ جَلّ شانہ نے صابرین کی تعریف کی ہے جو اِنَّالِلّٰہ پر ہی کفایت کرتے ہیں۔ اور اس دُعا کی فرضیت پر بڑا قرینہ یہ ہے کہ صرف امر پر ہی کفایت نہیں کی گئی بلکہ اس کو عبادت کے لفظ سے یاد کرکے بحالت نافرمانی عذابِ جہنم کی وعید اس کے ساتھ لگا دی گئی ہے۔