عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہؤا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔اور نہ کسی کان نے سُنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا ؟وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللھم صل و سلم و بارک علیہ وآلہ بعدد ھمہ و غمہ وحزنہ لھٰذہ الا مۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔اورؔ میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دُعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے۔ بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے ۔
اور اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دُعائیں خطا جاتی ہیں اور اُنکا کچھ اثرمعلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے ۔ کیا دوا ؤں نے موت کادروازہ بند کر دیا ہے؟ یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے ؟ مگر کیا باوجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کرسکتا ہے ؟یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے۔ مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا۔بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں۔مثلاََ اگر ایک بیمارکی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور میسّر آجاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے۔ تب دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے۔ یہی قاعدہ دُعا کا بھی ہے۔ یعنی دُعا کے لئے بھی تمام اسباب وشرائط