کوؔ قرآن سے یا حدیث صریح صحیح سے توڑ کر دکھلاتے جو حضرت مرزا صاحب نے مسیح کی موت پر لکھی ہیں۔ مگر اس دلی شعور نے کہ وہ واقعی بے سلاح ہیں انہیں اس طرف مائل کیا کہ وہ جوں توں کر کے اپنے منہ کے آگے سے اس موت کے پیالہ کو ٹال دیں وہ نہ ٹلا۔ اور آخر مولوی صاحب پر ذلت کی موت وارد ہوئی ! فَاعْتَبِرُوا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ ۔ اب امید ہے کہ وہ حسب قاعدہ کلیہ اس دنیا میں پھر نہ اٹھیں گے۔ چنانچہ لاہوری برگزیدہ جماعت نے بھی انہیں مردہ یقین کر کے اس درخواست میں اوراور بظاہر زندہ مولویوں کو مخاطب کیا ہے اور ان پر فاتحہ پڑھ دی ہے۔ ہم بھی انہیں روح میں مردہ سمجھتے اور ان کی موت پر تاسف کرتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اسلامی پبلک حیران ہے کہ کیوں مولوی ابو سعید صاحب نے اس بحث اور گزشتہ بحث میں قرآن کریم کی طرف آنے سے گریز کرنا پسند کیا اور کیوں وہ صاف صاف قرآن کریم اور فرقان مجید کی رو سے وفات وحیات مسیح کے مسئلہ کی نسبت گفتگو کرنے کی جرأت نہ کرتے یا عمداً کرنا نہ چاہتے تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اپنی نصوص قطعیہ بیّنہ کا جرار وکرار لشکر اور ان گنت لشکر لے کر حضرت مرزا صاحب کی تائید پر آمادہ ہے۔ دو سو آیت کے قریب حضرت مسیح کی وفات پر بالصراحۃ دلالت کررہی ہیں۔ مولوی ابو سعید صاحب نے نہ چاہا(اگر وہ چاہتے تو جلد فیصلہ ہوجاتا) کہ قرآن مجید کو اس نزاع میں جلد اور بلاواسطہ حکم اور فاصل بناویں اسلئے کہ وہ خوب سمجھتے تھے کہ سارا قرآن حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ہے اور وہ اس خواہ نخواہ معاندانہ کارروائی سے زک اٹھائیں گے۔ لیکن پیش بندی یہ مشہور کرنا اور بات بات میں یہ کہنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب حدیث کو نہیں مانتے۔ نعوذ باللّٰہ۔ ہم اس امر کا فیصلہ اہل تحقیق ناظرین پر چھوڑتے ہیں وہ دیکھ لیں گے اور مرزا صاحب کے جابجا اقراروں سے بخوبی سمجھ لیں گے کہ حدیث کی سچی اور واقعی عزت حضرت مرزا صاحب ہی نے کی ہے۔ ان کا مدعا ومنشا یہ ہے کہ حدیث کے ایسے معنے کئے جائیں جو کسی صورت میں کتاب اللہ الشریف کے مخالف نہ پڑیں بلکہ حدیث کی عزت قائم رکھنے کیلئے اگر اس میں کوئی ایسا پہلو ہو جو بظاہر نظر کتاب اللہ کی مخالفت کا احتمال رکھتا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسے قرآن کے ساتھ توفیق و تطبیق دینے کی سعی بلیغ کرتے ہیں اگر ناچار کوئی ایسی