اِدھرؔ اُدھر اڑانے شروع کئے جو حقانیت کی تندباد کی زد سے ٹوٹ کر اور پھٹ کر نابود ہوگئے۔ کچھ عرصہ کے بعد بعض زبردست احباب کی ناقابل تردید انگیخت اور ان کے بار بار کے شرم دلانے سے پھر مولوی صاحب نے کروٹ لی اور آخرکار زورآور دھکوں سے کر ھًالودیانہ میں پہنچائے گئے۔ اب سے اس مباحثہ کی بنا پڑنے لگی جو الحق کے ان چاروں نمبروں میں درج ہے۔ لودھیانہ والے مباحثہ پر چند ریمارکس ہمارے مقصد میں داخل نہیں کہ ہم اس وقت یہاں مباحثہ کے جزوی و کلی حالات اور دیگر متعلقات سے تعرض کریں۔ اس مضمون پر ہمارے معزز و مکرم دوست منشی غلام قادر صاحب فصیح اپنے گرامی پرچہ پنجاب گزٹ کے ضمیمہ مورخہ ۱۲ ؍اگست میں پوری روشنی ڈال چکے ہیں۔ ہمیں بحث کی اصلی غرض اور علتِ غائی اور آخر کار اس کے نتیجہ واقع شدہ سے تعلق ہے۔ الحاصل مولوی ابو سعید صاحب لودیانہ لائے گئے۔ اسلامی جماعتوں میں ایک دفعہ پھر حرکت پیدا ہوئی اور ہر ایک نے اپنے اپنے مشتاق خیال کے بلند ٹیلہ پر چڑھ کر اور تصور کی دور بین لگا کر اس مقدس جنگ کے نتیجہ کا انتظار کرنا شروع کیا۔ آخر مباحثہ شروع ہوا۔ ۱۲ روز تک اس کارروائی نے طول پکڑا۔ مگر افسوس نتیجہ پر لودیانہ کے لوگ بھی پورے معنوں میں اپنے بھائیوں اہل لاہور کی قسمت کے شریک رہے۔ مولوی صاحب نے اب بھی وہی اصول موضوعہ پیش کردیئے۔ حالانکہ نہایت ضروری تھا کہ وہ بہت جلد اس فتنہ کا دروازہ بند کرتے جو ان کے زعم کے موافق اسلام و مسلمانان کے حق میں شدید مضر ثابت ہورہا تھا یعنی اگر راستی و حقانیت پر اپنی انہیں پوری بصیرت اور وثوق کامل تھا تو وہی سب سے پہلے ہر طرف سے ہٹ کر اور لایعنی امور سے منہ موڑ کر حضرت مرزا صاحب کے اصل بنائے دعویٰ یعنی وفات مسیح کی نسبت گفتگو شروع کرتے۔ یہ تو کمزور اور بے سامان کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لئے اِدھر اُدھر پنجے مارتا اور ہاتھ اڑاتا ہے۔ ان پر واجب تھا کہ فوراً قرآن کریم سے کوئی ایسی آیت پیش کرتے جو حضرت مسیح کی حیات پر دلیل ہوتی۔ یا ان آیات کے معانی پر جرح کرتے اور ان دلائل