کرؔ رکھی تھی۔ اور ہر ایک سرسری دیکھنے والے کو بھی وہ عمارتیں جو سراسرریت پر اٹھائی گئی تھیں اس پر زور سیلاب کی رَو کے صدمہ سے بہتی نظر آنے لگیں۔ مدت کی مانی ہوئی بات کی الفت نے کسی حامی و معاون کی مشتاقانہ تلاش میں نگاہیں چاروں طرف دوڑا رکھی تھیں۔ مولوی محمد حسین کے وجود میں انہیں مغتنم حامی اور عزیز حریف مقابل نظر آیا۔ سچی ارادت اور مضبوط عقیدت نے متفقًا ہر طرف سے منقطع ہو کر اب مولوی ابو سعید صاحب کو امید وبیم کا مرجع قرار دیا۔ پنجاب کے اکثر مساجد نشین علماء نے(جو بظاہر اپنے تئیں غیر مقلد و محقق کہتے ہیں) ایک آواز ہو کر بڑے فخر سے ہمارے بٹالوی مولوی صاحب کو اپنا وکیل مطلق قرار دیا۔ سب سے پہلے لاہور کی ایک برگزیدہ جماعت نے جنہوں نے اب تک اپنی عملی زندگی سے ثبوت دیا ہے کہ وہ اسلام کے سچے خیر خواہ اور حق پسند و حق بیں لوگ ہیں میرے شیخ و حقیقی دوست مولوی نور الدین کو جبکہ وہ لودیانہ میں اپنے مرشد حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر تھے بڑے خلوص اور بڑے اصرار و الحاح سے لاہور میں بلایا کہ وہ انہیں ان مسائل مشکلہ کی کیفیت پر آگاہ کریں۔ مولوی نور الدین صاحب کی تشریف آوری پر طبعاً وہ اس طرف متوجہ ہوئے کہ مولوی ابو سعید صاحب کو جو ان دعاوی کے بطلان کے مدعی ہیں ان کے مقابل کھڑا کر کے جانبین کے اسلامیانہ مباحثہ اور صحابیانہ طرز مناظرہ سے حق دائر کو پالیں۔ مگر افسوس ان کے زعم کے خلاف ایک حلیم‘ متواضع اور دل کے غریب مولوی کے مقابلہ میں جناب مولوی ابو سعید صاحب نے صحابہ کے طرز مناظرہ کا ثبوت نہ دیا مشتاقین کی تڑپتی روحوں کے تقاضا کے خلاف اصل بنائے دعوٰی کو چھوڑ کر مولوی ابو سعید صاحب نے ایک خانہ ساز طومار اصول موضوعہ کا پیش کر کے حاضرین اور بے صبر مشتاقین کے عزیز وقت اور قیمتی آرزوؤں کا خون کردیا اور معاملہ جوں کا توں رہ گیا۔
اس کے بعد حضرت مرزا صاحب کے دعا وی کی تائید میں کتابیں اور رسالے یکے بعد دیگرے شائع ہونے شروع ہوئے اور فوج فوج حق طلب لوگ اس روحانی اور پاک سلسلہ میں داخل ہونے لگے۔ مدافعین و مخالفین نے بجائے اس کے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات کی نسبت قرآن کریم اور حدیث صحیح صریح کی بنا پر استدلال کر کے اپنے پرانے عقیدہ کی حمایت کرتے اور لوگوں پر اس جدید دعوٰی کی کمزوری کو ثابت کرتے عادتاً تکفیر بازی کی پتنگیں اور کنکوّے