آلہؔ ترقی و اصلاح کو ہر قسم کے مفسدات‘ شرور اور تمدن و معاشرت کی خرابیوں کا منبع کہا گیا۔ بدقسمتی سے بدعمل بنی آدم نے جہاں مباحثہ و مناظرہ کی مجلس قائم کی بس طرفۃ العین میں اسے تاریک وقتوں کی کشتی پنجہ زنی اور نبرد آزمائی کے خوفناک دنگل کی صورت سے بدل دیا۔ تو اریخ عامہ کو چھوڑ کر مقدس تاریخ (کتب السیر) کو اٹھاکر دیکھو۔ صحابہ میں بھی امور پیش آمدہ اور مسائل مہمہ کے بارہ میں جن میں کسی قسم کا اشکال و ابہام ہوتا اور کتاب و سنت کی نورانی چمک اس کی تاریکی کو اٹھادینے کی متکفل نہ ہوتی۔ مباحثے ہوتے۔ بڑے بڑے اہل علم فقہا جمع ہوتے۔ مگر وہ اس سچے نور سے منور تھے اور راہ حق میں نفسانی جذبات کو نیست و نابود کرچکے تھے۔ بڑی آشتی و لطف سے امر متنازعہ فیہ کی الجھن کو سلجھا لیتے وللّٰہ درمن قال جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا خلاف آشتی سے خوش آئند تر تھا حضرت مقدسہ مطہرہ عائشہ صدیقہ( رضی اللہ عنہا ) بڑی مناظرہ کرنے والی تھیں۔ اکثر واقعات میں صحابہ نے ان کی خدمت کی طرف رجوع کیا اور مباحثات کے بعد حضرت صدیقہ کے مذہب کو اختیار کیا۔ الغرض مباحثہ کوئی بدعت اور دراصل فساد انگیز شے نہ تھی۔ مگر مغلوب الغضب۔ بہائم سیرت متنازعین کی بے اندامیوں نے اسے بدعت و طغیان کی حد سے بھی کہیں پرے کردیا ہے۔ کچھ مدت سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے(رب جلیل کے القاء و اعلام سے) یہ دعو ٰی کیا ہے(۱) کہ حضرت مسیح اسرائیلی صاحب انجیل اپنے دوسرے بھائیوں(انبیاء علیہم السلام) کی طرح فوت ہوچکے ہیں۔ قرآن کریم ان کی وفات کی قطعی اور جزمی شہادت دے چکا ہے۔ اور (۲) دوبارہ دنیا میں آنے والے ابن مریم سے مراد مثیل المسیح کے وجود سے ہے نہ مسیح اصیل سے اور (۳) َ میں مسیح موعود ہوں جو بشارتِ الٰہیہ کی بنا پر دنیا میں اصلاح خلق کے لئے آیا ہوں۔ حضرت مرزا صاحب نے اسی سنت اللہ کے موافق جو انبیاء اور محدثین کی سیرت سے عیاں ہے ان دعا وی خصوصاً و مہتماً ان دو دعووں کی اجابت کی طرف کافۃ الناس کو بآواز بلند و ندائے عام بلایا۔ اہل پنجاب سے(بحکم آیۃ شریفہ وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِىٍّ الایۃ)۱؂ بٹالہ کے شیخوں میں کے ایک بزرگ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب اس دعوت کی تردیدپر کھڑے ہوئے۔لوگوں کے اعتقاد کے موافق ان جدید دعووں نے عقائد قدیمہ کی دنیا میں فوق العادت رستخیز پیدا