انٹرؔ وڈکشن
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِ الشَّفِیْعِ الْمُشَفَّعِ الْمُطَاعِ الْمَکِیْنِ وَعَلٰی اٰ لِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ
مباحثات و مناظرات نفس الامر میں بہت ہی مفید امور ہیں۔ فطرتِ انسانی کی ترقی جسے طبعاً کورانہ تقلید سے کراہت ہے اور جسے ہر وقت جدید تحقیقات کی دھن لگی رہتی ہے اسی پر موقوف ہے۔ انسان کی طبیعت میں جذبات اور جوش ہی ایسے مخمر کئے گئے ہیں کہ کسی دوسرے ہم جنس کی بات پر سرِتسلیم جھکانا اسے سخت عار معلوم ہوتا ہے ایام جاہلیت ( جو اسلام کی اصطلاح میں کفر کا زمانہ ہے اور جو ہمارے ہادی کامل آفتاب صداقت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے کا زمانہ ہے) میں بڑی حمیت والے شدید الکفر سردار ان عرب اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جو کسی کی بات مانا نہیں کرتے درحقیقت یہ ایک سرّ ہے جو ایک بڑی بھاری غرض کیلئے حکیم حمید نے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے۔ غرض اس سے یہ ہے کہ یہ ہستی بہائم کی طرح صمّ وبکمٌ اور مقلد محض نہ ہو بلکہ ایک کی بات دوسرے کی جدت پسند ایجادی طبیعت کے حق میں زبردست محرک اور اشتعال انگیز ہو۔ اگر عادت اللہ یوں جاری ہوتی کہ ایک نے کہی اور دوسرے نے مانی تو یہ نیر نجات و عجائبات سے بھرا ہوا عالم ایک سنسان ویرانہ اور وحشت آباد بیابان سے زیادہ نہ ہوتا۔ مگر حکیم خدا نے اپنا جلال ظاہر کرنے کیلئے ہر چیز کے وجود کے ساتھ شرکاء کا وجود بھی لازم کر رکھا ہے۔ کم ہی کوئی ایسی شے ہوگی جو زوجین یا ذووجہین نہ ہو۔ اس قابل فخر فضیلت کو بھی اسی قاعدہ کلیہ کے موافق بڑی سخت قبیح رذیلت یعنی تعصب بیجا اصرار معاندانہ ضد‘فرضی مسلمات قومی کی پچ۔ خلاف حق نفسانیت نے اس کے محققانہ بلند مرتبہ سے گرا کر۔ اور عامیانہ اخلاق کی پست اور ذلیل سطح پر اتار کر اس کو عالم میں بے اعتبار کردیا۔ نہ صرف بے اعتبار بلکہ مہیب خونخوار بنادیا۔ یوں ایک سچی اور صحیح اور ضروری اصل کو انسان کے بے جا استعمال کی دراز دستی نے ایسا بگاڑا۔ ایسا بدنام کیا کہ اس