کہؔ حضرت اس کی کیا وجہ ہے جو آپ ا س طرح رہتے ہیں آپ نے کلاہ اتار کرانکے سر پر رکھدی ایک دفعہ ہی بے ہوش ہو گئے جب دیر میں افاقہ ہوا عرض کیا سو سوا سو کی شکل آدمی کی تھی اور کوئی ریچھ اور کوئی بندر اور کوئی خنزیر کی شکل تھا اور اُس وقت مسجد میں پانچ چھ ہزار آدمی تھے حضرت نے فرمایاکہ میں کس کی طرف دیکھوں اس باعث سے تو نہیں دیکھتا ۔ ‘‘
دہلی والو خدا کیلئے اس واقعہ سے عبرت پکڑو مجھے ڈر لگتا ہے کہ اسوقت بھی تم نے اپنی حرکات سے ثابت کر دیا ہے کہ تم میں بہت ہی تھوڑے ہیں جو اصلی انسانی صورت پر ہیں اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے۔ اے اہلِ پنجاب ! موقعہ ہے کہ تم اس دہلی کے واقع کو سنکر پوری نصیحت حاصل کرو۔ سعادت مند وہ ہے جو دوسروں کا حال دیکھ کر عبرت پاتا ہے تم ان تکفیر باز خشک ملاؤں کو انکی اپنی غضب و حسد کی دہکتی ہوئی بھٹی میں جلنے دو۔ ان سنگدل حقد مجسم صاحبان غرض کو کبھی بھی خلوصًا حق سے سرو کارہوا ہے جو اب ہوگا؟۔ اے علم خیز سر زمین لاہور کے رہنے والو ہوشیار ہو جاؤ تمہارایہ بزرگ خطہ ساری پنجاب کا مرجع ہے۔ دیکھنا وہ پتھر جسے خود تم نے بڑی کوششوں کے ساتھ اپنی راہ سے ہٹایا ہے وہ پھر تمہاری ٹھوکرکا باعث نہ ہو۔ تم خوب جانتے ہو وہ شاخ کس جڑ سے پھوٹی ہے کس زمین میں اسکا نشوو نما ہوا ہے۔ دیکھنا دیکھنا ! بُھولے سے بھی تمہارے ہاتھ سے پھر اس کی آبیاری نہ ہو!۔ ایسا نہ ہوکہ دِلّی کا اُلّو تمہاری دیواروں پر بھی بولنے لگے۔ اے دانشمندو! تم ان کاغذی گڑیوں پر کیوں فریفتہ ہوتے ہو کیا یہ کفر کے فتوے غیر معصوم ہاتھوں کے لکھے ہوئے اور ظالم دلوں کے نتائج نہیں؟ کیا یہ ناشدنی سیاہ کارروائی کرنیوالے خود بھی کاغذی پیراہن پہن کر داد خواہ نہیں ہوئے کہ ان پر ناحق کفرکا فتویٰ لگایاگیا؟ پس یہ مسلسل کافر بھی کیا کسی دوسرے کو کافر بنانے کا استحقاق رکھتے ہیں ؟ یہ دھوکے کی ٹٹی ہے جو ان ملاؤں نے کھڑی کررکھی ہے ۔ اے صاف باطن حق کے طالبو اسکو پھاندکر آگے بڑھو اور دیکھوکہ وہ جسے یہ حاسد سیاہ غول ثابت کرنا چاہتے اور ڈہٹ بندی کر کے لوگوں کو ایک ڈراؤنی مورت دکھاتے ہیں وہ درحقیقت ایک عظیم الشان روشنی کا فرشتہ ہے۔ اے خدا اے ہدایت کے مالک خدا تو ان لوگوں کو توفیق عنایت فرما کہ وہ تیرے اس بندہ کو پہچانیں ! آخر میں اس دل لبھانے والے عربی قصیدہ کی نسبت جسکی اشاعت کو بڑا ضروری اور مفید سمجھاگیا ہے مَیں اتنا کہنا چاہتاہوں کہ یہ ہمارے ایک نہایت برگزیدہ دوست کا لکھا ہوا ہے جسکے وجود کو ہم اپنے درمیان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت سمجھتے ہیں۔ ہم کسی وقت بشرط ضرورت اُنکا حال بھی لکھیں گے۔ امید ہے کہ اس قصیدہ کے اردو ترجمہ کو جو اکثر جگہ حاصل مطلب کے طورپر کیا گیا ہے دلچسپی سے خالی نہ پائیں گے۔