مولوؔ ی محمد بشیر صاحب نے کسی نیت پر اس میدان میں قدم رکھا ہو مگر ہم انھیں مبارک دیتے ہیں کہ انہوں نے ہند و پنجاب کے علماء کی طرف سے اپنے تئیں فدیہ دیا ہے واقعی وہ ایک زبردست کفارہ اپنے ہم پیشہ لوگوں کی طرف سے ہوئے ہیں اللہ تعالےٰ نے انھیں اس لق و دق بیابان میں جہاں کوئی جادہ نہ ملتا تھا اور نہ جہاں کوئی نقش پائے رہ رواں ہی نظر آتا تھا اس نشان کی طرح کھڑا کیاجس سے مسافر سمت کا پتہ لگاتے ہیں اگرچہ اس میل( نشان) کو شعور نہ ہو کہ اس کا وجود اتنے بڑے فائدہ کا موجب ہے مگر ہم امید رکھتے ہیں کہ شاید شاکر علیم خدا اُن کو بوجہ دال علی الخیر ہونے کے واقعی فہم بھی عطاکر دے تو کہ وہ اس فرستادہ خدا وندی کو طوعًا قبول کریں میرا پکا ارادہ تھا کہ میں معمولًا ان مضامین پر کچھ نوٹ یا ایک مختصر ریویو کرتا مگر میرے دلی دوست بلکہ مخدوم معظم مولوی سید محمد احسن صاحب نے مجھے اس فرض سے سبکدوش کر دیا انھوں نے جیسا اس خدمت کو ادا کیا ہے درحقیقت اُنہی جیسے فاضل اجل کا حصہ تھا۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء میرا یقین ہے کہ یہ ایسا نیک کام ان کے مبارک ہاتھ سے پور اہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے رفع درجات کے لئے ایک یہ ہی بس ہے مگر قوی امید ہے کہ ہمارے حضرت سیّد صاحب موصوف روح قدس سے مویّد ہو کر اور بھی بڑے مفید اور منتج ثواب کام کریں گے۔
الغرض مولوی محمدبشیر صاحب کے وجودکوہم مغتنم سمجھتے ہیں جنہوں نے غیرضروری مباحث اور بخلاف ایک پنجابی ملا کے لاطائل اصول موضوعہ کو چھوڑکر اصل امرکو بحث کاتختہ مشق بنایا اور یوں خلق کثیر کے ہر روزہ انتظار جان کاہ کو رفع کر دیا گو اسپر بھی اس بات کے کہنے سے چارہ نہیں کہ ہدایت ایک منجانب اللہ امر ہے اور وہ سچا ہادی لامعلوم اسباب کے وسایط سے سعید ان ازلی کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے مگر کہنے کو کہاجاسکتا ہے کہ راہ خوب صاف ہوگئی اور اس مضمون حیات وممات مسیح ؑ کی بحث کی حجت قطعًا و حکمًا تمام ہو گئی۔
ہم کمال ہمدردی اور اسلامی اخوت کی راہ سے اہل دہلی کو اتنا کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ناحق کی ضد کو چھوڑکر اس مامور من اللہ کو قبول کریں ورنہ ان کا انجام خطرناک معلوم ہوتاہے۔ میں کانپتے ہوئے دل سے انھیں اتنا کہنے سے رک نہیں سکتا کہ ان کاجامع مسجد دہلی میں حضرت مسیح موعود کے برخلاف چھ سات ہزار آدمی کامجمع کر کے طرح طرح کی ناسزا حرکا ت کا مرتکب ہونا دیکھ کر مجھے یاد آگیا حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا وہ واقعہ جو کمالات عزیزی مطبوعہ دہلی میں لکھا ہے ’’جناب مولانا شاہ عبد العزیزجو واسطے نماز جمعہ کے جامع مسجد میں تشریف لے جاتے تو عمامہ آنکھوں پر رکھتے۔ ایک شخص فصیح الدین نام جو اکثر حضور میں حاضر رہتے تھے انہوں نے عرض کیا