کےؔ پورے مصداق ہو رہے ہیں۔ بے شک بعض اب بھی ہیں جنہیں مقدس اسلاف کی سچی یادگاریں کہنا کچھ بھی مبالغہ نہیں۔ الغرض حضرت مرزا صاحب اپنے مخدوم آقا اپنے مقتدا جناب ہادئ کامل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح جبکہ وہ اہلِ مکہ سے ایذائیں سہہ کر طائف ایسے مہذب و شاداب شہر کو تشریف لے گئے تھے کہ کہیں ان میں ہی کوئی طالب حق مل جائے ہندوستان کے مہذب شہر دہلی میں آئے۔ مگر کیا ہمیں اس بات کے اظہار پر دلی رنج مجبور نہیں کرتا کہ اہلِ دہلی نے ( الّاماشاء اللہ ومن شاء عصمہ) شاید اہلِ طائف کی تاریخ پڑھ کر اور اپنی پر زور نخوت و رعونت پر اعتماد کر کر نہ چاہا کہ وہ ایک مرد خدا کے ساتھ بد سلوکی کرنے میں ان گذشتہ مخالفان راستی سے کوئی قدم پیچھے رہ جائیں خیر جو کچھ ان سے بن پڑا انہوں نے کہا اور کیا اور ایک با امن۔ رحیم ۔ مہذب اور پکی بے طرف دار گورنمنٹ کے پر سطوت و بارعب وقت میں جس قدر مخالفت کا وہ حوصلہ رکھتے تھے انہوں نے کی مگر ان کی متفق کوششوں سے نور اللہ بُجھ نہ سکا بلکہ آخر اُنہی کے ہاتھوں اُنہی کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ نے اس نور کی ترقی کاموجب بنایا مگر انہوں نے سخت غفلت کی وجہ سے نہ سمجھا شاید اب بہتیرے سمجھ جائیں ۔ یہاں ہمیں ضرورت معلوم نہیں ہوتی کہ ہم دہلی کی کارروائی کے جزوی و کلی حالات مفصلًا لکھنے کی تکلیف اٹھائیں۔ اس امر کو ہمارے مکرم دوست منشی غلام قادر صاحب فصیح ضمیمہ پنجاب گزٹ مورخہ۱۴؍ نومبر میں بڑی وضاحت اور صداقت سے شائع کر چکے ہیں ہمارے نزدیک اتنا ہی کہنا ایک جامع مضمون کے قائم مقام ہے کہ ان لوگوں نے ایک مسلم انسان کے ساتھ برتاؤ کرنے میں حقوق العباد میں سے کسی ایک حق کی بھی رعایت نہ کی لیکن اللہ تعالےٰ کو منظور تھا کہ بہر نہج ان پر حجت تمام کر دے گو میاں مولوی سید نذیر حسین صاحب اور انکے لشکروں نے اللہ تعالیٰ کے اتمام حجت کی راہ میں عمدًا بڑی بڑی چٹانیں ڈالدیں اور ہر طرح ہاتھ پاؤں مارے کہ انکا لشکر قیام بیّنہ سے ہلاک نہ ہونے پائے اور جوں توں کر کے وہ پیالہ اُن سے ٹل جائے مگر اللہ تعالیٰ نے مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کو ایک دوست کی صورت میں ان کا خانہ برانداز دشمن بھیج دیا یہ کہنا نا درست نہیں کہ مولوی صاحب کو دہلی کے بعض پیروانِ میاں صاحب نے جو میاں صاحب سے بوجہ شدّتَ ھرَم ا ور دیگر ملاؤں سے بوجہ فقدان قابلیت مایوس ہو چکے تھے بڑے شوق سے بلایا اور یہ بھی بالکل حق ہے کہ مولوی محمد بشیر صاحب کو باغراض شتیّٰ خود بھی خواہش تھی کہ حضرت مرزا صاحب سے مباحثہ کریں بہر حال اس سادہ دل مولوی نے میاں سید نذیر حسین صاحب اور انکے تابعین کے رحم انگیز زار نالے اور سخت سر زنش پر بھی مطلق کان نہ دھر کے بڑی جرأت سے حیاتِ مسیح علیہ السلام کا دعویٰ کیا اوراس دعوےٰ کو کیونکر نباہا ناظرین اِن مضامین کو پڑھ کر خود ہی سمجھ لیں گے گو