بِسْمِؔ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَ بِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیْ الصادق المصدوق المطاع الامین ۔ دہلی کے مباحثہ کے شیوع میں امید سے زیادہ توقف ہوا اس عرصہ میں بیقرار اور منتظر شائقین کو فرط تحیر سے طبعًا طرح طرح کے ظنون و اوہام کے پنجہ میں اسیر ہوناپڑا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس التوا و توقف میں بھی بڑی مصلحتیں ثابت ہوئیں اور اب یہ دنیا میں اپنی پوری تجلّی کے ساتھ آفتاب نصف النہار کی طرح چمکا ہے ۔ بیشک ایک عالم کو انتظار لگ رہا تھا کہ اس جلیل اور با ہیبت دعوے کے مقابلہ پر جو مرسل یزدانی امام ربّانی حضرت غلام احمدؐ قادیانی نے کیا ہے مستند اور مسلم فضلاء سے کوئی شخص کھڑا ہو اور مسلمانوں کودلی شوق تھا کہ قدیم بغل پروردہ عقیدہ کو نہ چھوڑیں جب تک کسی زبردست مقابلہ کی محک پر کس کر اس کا ناسرہ ہونا ثابت نہ ہوجائے ۔ لودیانہ کے مباحثہ سے جو اصل دعویٰ مسیح موعود سے بالکل اجنبی واقع ہوا تھا مسلمانوں کی پیاس کو ایک قطرۂ آب بھی ہونٹ تر کرنے کیلئے نہ ملا تھا۔ گو ایک وجہ سے اہلِ حق مبصّر کو اس سے بھی حضرت مرزا صاحب کا مویّد من اللہ ہونا صاف طور پر ثابت ہو چکا تھا۔ مگر عام لوگ جنکی نگاہیں مبادی سے متجاوز ہو کر مقاصد کی تہ درتہ باریکیوں پر پہنچ نہیں سکتیں کھلا کھلا ثبوت اور بیّن حجّت کا ظہور چاہتے تھے سو رحیم کریم اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو حیرت و تردد کی ظلمتوں میں ابتلا کے وقت اپنی خاص رحمت سے چراغ ہدایت ہاتھ میں دیتا ہے اپنی دائمی سنت کے موافق اب بھی تقاضا فرمایا کہ ان فطری سعیدوں کوجن پر بعض بواعث سے آنی حجاب پڑگئے ہیں اورجنہیں حقیقۃً قبول حق کی سچی اور پُر جوش تڑپ تو لگی ہوئی ہے مگر وہ صدیقی ایمان کے خلاف قاطع حجت اور باہر دلیل دیکھ کر ایمان لانا پسند کرتے ہیں ۔ اپنی مرضیات کی راہیں دکھانے کیلئے ایک خاص امر فارق بین الحق والباطل دکھلائے۔ اس حکیم حمید اللہ تعالیٰ نے اپنی زبردست حکمت کے پورا کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود کے دل میں سفر دہلی کا ارادہ القا کیا۔ آپ ۲۸ ستمبر کو مع الخیر وارد دہلی ہوئے۔ کل پنجاب اور ہندوستان کی آنکھیں بڑی بے صبری سے دہلی کی کارروائیوں کو دیکھنے لگیں ۔ ان کا یہ موروثی اعتقاد چلا آتا تھا کہ دہلی بڑے بڑے نامی علماء اور اجلہ اولیاء کامسکن و ماویٰ ہے اس لئے وہاں کما ینبغی احقاق حق اور ابطال باطل ہو جائیگا مگر افسوس وہ نہ جانتے تھے کہ ان کے حسن اعتقاد کے محرک ومرجع جن کی پاک اور برگزیدہ تصنیفات و تالیفات انکی دلکش تصاویر کے مرقع کی بجا قائم مقامی کر کے پڑھنے والوں کے دل میں سو سو حسرتیں چھوڑتی ہیں قبروں میں سو رہے ہیں اور انکے سینوں کو روندنے والے اتر ااترا کر چلنے والے وہ لوگ ہیں جو