مضمون سے ظاہر ہے کہ ستمبر ۱۸۹۴ء کاخط ہے۔ حضرت نواب صاحب نے جس جرات اور دلیری سے اپنے شکوک کو پیش کیا ہے۔ اس سے حضرت نواب صاحب کی ایمانی اور اخلاقی جرات کا پتہ چلتا ہے۔ انہوںنے کسی چیز کو اندھی تقلید کے طور پر ماننا نہیں چاہا۔ جو شبہ پید اہوا اس کو پیش کر دیا۔ خداتعالیٰ نے جو ایمان انہیں دیا ہے۔ وہ قابل رشک ہے۔خداتعالیٰ نے اس کا ا جر انہیں یہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نسبت فرزندی کی عزت نصیب ہوتی۔ یہ موقعہ نہیں کہ حضرت نواب صاحب کی قربانیوں کا میں ذکر کروں جو انہوںنے سلسلہ کے لئے کی تھیں۔ بہت ہیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کو اخلاقی جرات کی کمی کی وجہ سے اگل نہیں سکتے۔ مگر نواب صاحب کو خداتعالیٰ نے قابل رشک ایمانی قوت اور ایمانی جرات عطا کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دل میں کوئی شبہ پید اہو تو اسے قے کی طرح باہر نکال دینا چاہئے۔ اگر اسے اندر سے رہنے دیا جائے تو بہت برا اثر پیدا کر تا ہے۔ غرض حضرت نواب صاحب کے اس سوال سے جو انہوں نے حضرت اقدس سے کیا۔ ان کے مقام اور مرتبہ پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا بلکہ ان کی شان کو بڑھاتا ہے اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے ایمان میں سے بڑے مقام پر تھے۔ اللم زدفزد۔ (عرفانی)