کہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے۔ تب ڈگری ہو گی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوٹی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑ دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کی رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا۔ جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں۔ پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میر ایہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گزشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میری مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے۔ بلکہ یہ خیال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوص بینہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہرایک پہلو میں ا س قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے۔ تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اوربراہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل وقال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے۔ معقولی ثبوت تو اوّل درجہ پر ضروری ہوئے ہیں۔ بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں۔ یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ا ن ثبوتوں سے کچھ بڑھ کرنہیں ہیں۔ جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر او راولیاء کرام سے میرے پاس موجود