نے بہتر آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہو گئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلاتا۔ ان میں سے بار ہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہو گیا اور جو قائم رہے انہوںنے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے۔ مکرر میں آپ کو کہتاہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ میرے قرب وجوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا۔ مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہو گا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر ابھی خداتعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانا چاہتا ہے۔اگر ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ گروہ جو بد ظنی کی شامت سے مجھ سے دور پڑتے جاتے ہیں۔ میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرو قیل وقال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو ازراہ تو دودو مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بری کر سکتی ہے۔ واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں۔ کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتا