احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جائوں ۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پودہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا۔ جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ سے کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دین وآخرت کی بلائوں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ثم آمین۔ آپ کی اس بیعت کی کسی کو خبر نہیں دی گئی اور بغیر آ پ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن مناسب ہے کہ اس اخفا کو صرف اسی وقت تک رکھیں کہ جب تک کوئی اشد مصلحت درپیش ہو۔ کیونکہ اخفا میں ایک قسم کا ضعف ہے اور نیز اظہار سے گویا قولاً نصیحت للخلق ہے۔ آپ کے اظہار سے ایک گروہ کو فائدہ پہنچتا ہے ا ور غبت الی الخیر پیدا ہو تی ہے۔ خداتعالیٰ ہر ایک کام میں مدد گار ہو کہ بغیر اس کی مدد کے انسانی طاقتیں ہیچ ہیں۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد نوٹ:۔اس خط کی تاریخ تو معلوم نہیں۔ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے نواب صاحب کو بیعت کی تحریک فرمائی تھی۔ مگر ا س وقت وہ اس کے لئے تیار نہ تھے اور اپنی جگہ بعض شکوک ایسے رکھے تھے جو مزید اطمینان کے لئے رفع کرنے ضروری تھے۔ جب وہ شکوک رفع