کلام میں رکھی جاتی ہے۔ لہذا ہر ایک جو نبی کی توجہ نام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے۔ تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں۔ جن کو غیر متلوو حی ہوتی ہے۔ اب اللہ جلشانہ‘ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنی درجہ کی وحی جو حدیث کہلاتی ہے۔ بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کے لئے تمنّا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کرجاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ایک اٰ لہ کی طرح ہوتا ہے۔ پس چونکہ ہر ایک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے وحی کہلائے گی نہ اجتہاد کی اب خدا تعالیٰ اس کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہادی بھی کہتے ہیں مس شیطان سے مخلوط ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب بنی کوئی تمنّا کرتا ہے کہ یوں ہوجائے۔ تب ایساہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے۔ جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کرلیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الہیٰ اور وحی متلوّ شیطان کی دخل سے بکلی منزّہ ہوتی ہے کیونکہ وہ سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول