اور یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعاکی جائے کہ ہر ایک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو۔ عزیز من یہ بات خداتعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبت سے معطل کر دیوے۔ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیۃ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایۃواللہ علیھم الحکیمیعنی ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے۔ یعنی اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے۔ یعنی جب کوئی رسول نہ کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے۔ تب وحی متلو جو شوکت اور ہبیت اور روشنی نام رکھتی ہے۔ اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفا کرکے دکھلا دیتی ہے۔ یہ بات اس کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میںجو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پید اہوتی ہے۔ وماینطق عن الھویٰ ان ھو الاوحی یوحیٰ لیکن قرآن کی وحی دوسری وحی سے جو صرف منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلّو میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر ایک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس