انتظاروں میں وقت خرچ کردیتا ہے۔ ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے تیاری کرتا ہے۔ وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جوبرسوں میں ختم ہوں۔ وہ وپودے باغ میں لگاتا ہے۔ جن کا پھل کھانے کے لئے ایک دور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خداتعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے۔ اس کا باعث بجز اس کے کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے انسان خداتعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اوراپنے دل میں مقرر نہیں کر تا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اورکہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندے کے پیچھے ہوچلوں گا۔ بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح سمجھتا ہے حواریوں نے حضرت مسیح سے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے مائدہ اترے تابعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں۔ پس اللہ جلشانہ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میں اس نشان کو ظاہرکروں گا۔ لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے۔ تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہ کیا ہو گا۔ تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہو گئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تہمید ہے۔ وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یک لخت دینا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن