ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اورعزت کے لائق مرتبے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے۔ جو ان راستبازوں کو ملیں گے۔ جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہنچان لیا اورجو اللہ جلشانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہو ا بندہ تھا ۔ اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کر ے باکمال وہ آدمی ہے جو گدائوں کے پیرایہ میں اس کوپاوے اور شناخت کر لے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیرکی کسی کو دوں ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہو ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں۔ اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خداتعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں۔ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آیندہ ان کا دروازہ بند نہیں۔ ان نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دور ہے۔ خداتعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب مکہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خداتعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے۔ کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سے پر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا۔ انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کے لئے سالہا سال