آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پید اہوئی تو خداتعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا۔ وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کاروپ بن کر مسیح موعود کہلایا۔ کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اس میں حلول تھا۔ یعنی حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہو گئے تھے اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پید اہوا تھا۔ پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا۔اس لئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کیوکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق غزاسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسویہ اس شبیہہ میں رکھی جائے۔ تا اس شبیہہ کا نزول ہو۔ پس ایسا ہی ہو گیا۔ اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا۔ یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہو گا یا ابراہیم نازل ہو گا یا دائود نازل ہو گا۔ کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا۔ کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی۔ اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا۔ یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پرکھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانے کے گزرنے کے بعد کہ خیر اوراصلاح اور غلبہ