اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہو گیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے جس نے پہلے خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کر لیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیو نکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذاب کو کون قبول کر سکتا ہے۔ سو یہ معنی جو ہمارے علماء لیتے ہیں بالکل فاسد ہیں صحیح معنی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد خل در امور نبوت اورخدائی کے دعویٰ دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آجکل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آرہی ہیں ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایساتوڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویاخدائی کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے۔
غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے کے لئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہادیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بد اثر ڈالا ہے۔ تقریر سے تحریر سے مال سے عورتوں گانے سے بجانے سے تماشے دکھلانے سے ڈاکٹر کھلائے سے غرض ہر ایک پہلو سے ہر ایک طریق سے ہر ایک پیرایہ سے ہر ایک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں یہ ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش