اس کا نزول ہو سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا۔
یہ ایک سراسرارا الہٰیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اور اس اصل تعلیموں اور ہدایتوں کے بدلا کر بہیودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افتراکرکے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تواس نبی کے دل میں ان فساد اور تہمتوں کے دور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پید اہو۔
اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا اوّل جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گزر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ بااللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اس نے صلیب پر جان دی پس جبکہ مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور اوبموجب توریت کے اس آیت کے جو کتاب استفاء میں ہے کہ جو شخص صلیب پر