نہیں۔ اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میںہے۔ پھر جس شخص مکالمہ الہٰیہ کی فضیلت حاصل ہوگی اور کسی خدمت دین کے لئے مامور من اللہ ہوگیا۔ تواللہ جلشانہ‘ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے۔ یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں ۔ اسلام میں موسیٰ عیسیٰ ۔داؤد۔ سلیمان۔ یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں۔ اس تفادل کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہوجائیں۔ پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دے کر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے۔ تو کیااس میں استبعادہے؟
اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے۔ دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لئے جو بغیر تائید الہٰی دور نہیں ہوسکتی۔ عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں۔ جن کے دورکرنے کے لئے ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے اور جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے۔ اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی اور خداتعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر