لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے کون سے حکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کردیا ہے ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنی کئے گئے ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں او رقرآن کریم ان معنوں کے صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتے ہیںپھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوعا ہے۔
ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیںکیوں اس مدعی کی صداقت کو ماننے کے لئے قراین تو چاہئے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکرو فریب او ربد دیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے۔
اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ زیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قراین کے ہیں۔
(۱) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو معبوث کرے گا جودین کو پھر تازہ کر دے گا اس کی کمزوریوں کا دور کرکے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آئے گااس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودہویں صدی پر بھی خداتعالیٰ کی طرف سے معبوث