جگہ تو ایسے انقلاب کادعویٰ نہیں ہے وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہ ہی نمازیں ہیں جوپہلے تھیں۔وہ ہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب ہے جو پہلے تھی۔ اصل دین سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کادعویٰ اس وقت گراں اورقابل احتیاط ہوتا کہ جب اس دعوے کے ساتھ نعوذباللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ صرف مابہ التراع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اورنہ اسلامی اعتقادات پر ا س کا کوئی مخالفانہ اثر ہے۔ تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟ جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے۔ ایک مسلمان جسے تائید اسلام کے لئے خداتعالیٰ نے بھیجا۔ جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اورآج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثبوت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ و رسول کی محبت کی طرف رجوع دلا وے۔ کیا اس کاقبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟ مسیح موعود کادعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ اثر پہنچتا۔ تو بے شک ایک ہولناک بات تھی۔