یہ خیال کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہو گا۔ وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان۔ پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوایل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذ یب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ رائوں پر اصرار کر چکے۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں کہا کہاب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے۔ غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اورنشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جنہم ہو چکے ہیں۔ خداتعالیٰ اپنی نسبت کو نہیں بدلتا۔ وہ جیسا کہ اس نے فرمادیا ہے۔ ان ہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے۔ جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرآن مرحجہ کودیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کوقبول کرلیتے ہیں اورصادق کا کلام اورصادق کی راستبازی۔ صادق کی استقامت اورخود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے۔ مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے۔ ماسوا اس کے جو شخض ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کراویں اور بعض احکام کومنسوخ کریں اوربعض نئے احکام لاویں۔ لیکن اس