ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اوراگر وہ معجزات کے دیکھنے اپر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے تو خداتعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہوسکتے کیونکہ جن لوگوں نے نشان مانگا خداتعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کاانجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی حالت میں ہی مرے۔ غرض خداتعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا۔ انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کوکوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پید اہو گا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے او راگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو۔ اس کاجواب وہی ہے جو میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکبر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قراین جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں او رتصدیق کاپلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو۔ مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت