یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حدسے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارہ میں اللہ جلشانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آسکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خداتعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کر لیتے ہیں وہ بکل الوجود ہم پر مکشوف نہیں ہوتیں۔مثلاً خد ائے تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں۔ فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے مگر وہ بھی نہیں دیکھے۔ بہشت اور دوخ پر بھی ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں محض حسن ظن سے مان لیتا ہے اس لئے خداتعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کے لئے موجب نجات ہوجاتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوخ ملایک مخلوق خداتعالیٰ کی ہے ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بد یہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ہم آفتاب کے وجود پر بھی ایمان لائے اور زمین پر بھی ایمان لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پرایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہوسکتی ہے پھر کیا وجہ سے