بما کذبو امن کذالک یطبع اللہ قلوب الکا فرین یعنی پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ بھی لوگ ایمان لائے ۔ کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کرچکے تھے۔ اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ جوا س قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے ۔ یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اوربہت سی آیتیں قرآن کریم کی جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے با لا تفاق بیان فرما رہیں ہیں کے نشان کو طلب کرنے والے مورد غضب الہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاویں اس کا ایمان منظور نہیں اس پردو اعتراض وار ہوتے ہیں اول یہ کے نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں۔ جو شخص اپنے اطمنان کے لئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکہ نہ کھاوے اور مرداہ الٰہی کو قبول الٰہی خیال نہ کرے۔ اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو۔ اس کو قراین مرحجہ کے لحاظ سے قبول کیا جاوے۔ یعنی اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قراین موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں۔