غرض سے طلب کیا گیاہے۔ سو اگر یہ مدعیان ایسا اقرار کریں کہ جو اوپر بیان ہو چکا ہے تو پھر کچھ حاجت نہیں کہ علماء سے فتویٰ پوچھا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جوشخص آپ ہی یقین نہیں کرتا۔ وہ مباہلہ کس بناء پر کرناچاہتا ہے؟ مباہل کا منصب یہ ہے کہ اپنے دعوے میں یقین ظاہر کرے صرف ظن اور شبہ پر بنا نہ ہو۔ مباہل کو یہ کہنا ماننا پڑتا ہے کہ جو کچھ اس امر کے بارے میں خداتعالیٰ کو معلوم ہے وہی مجھ کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے۔تب مباہلہ کی بنیاد پیدا ہوتی ہے۔پھر یہ بات بھی ہے کہ مباہلہ سے پہلے شخص مبلغ کا وعظ بھی سن لینا ضروری امر ہے۔ یعنی جو شخص خداتعالیٰ سے مامور ہو کرآیا ہے۔ اسے لازم ہے کہ اوّل دلایل بینہ سے اشخاص منکرین کو اپنے دعوے کی صداقت سمجھا دے اور اپنے صدق کی علامتیں ان پر ظاہر کرے۔ پھر اگر اس کے بیانات کو سن کرا شخاص منکرین باز نہ آویں اور کہیں کہ ہم یقینا جانتے ہیںکہ مفتری ہے تو آخر الحیل مباہلہ ہے۔ یہ نہیں کہ ابھی نہ کچھ سمجھا نہ بوجھا نہ کچھ سنا پہلے مباہلہ ہی لے بیٹھے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مباہلہ کی درخواست کی تواس وقت کی تھی کہ جب کئی برس قرآن شریف نازل ہو کرکامل طور پر تبلیغ ہوچکی تھی۔ مگر یہ عاجز کئی برس نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک مجلس علماء کی جمع ہو اور ان میں وہ لوگ بھی جمع ہوں جو مباہلہ کی درخواست کرتے ہیں۔ پہلے یہ عاجز انبیاء کے