طورپر آلات نجوم اپنے پاس رکھتا ہے اورا نہیں کے ذریعہ سے کچھ کچھ آئندہ کی خبریں معلوم کرکے لوگوں کو کہہ دیتا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ مولوی اسمٰعیل صاحب نے کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ اس عاجز کی دیانت اور صدق پر ایک تہمت لگائی تھی جس کی اپنے ایک دوست کی رؤیت پر بنا رکھی تھی۔ لیکن بنا صرف اگر اجتہاد پر ہو اور اجتہادی طو پر کوئی شخص کسی مومن کو کافر کہے یا ملحد نام رکھے ۔ تو یہ کوئی تعجب نہیں ۔ بلکہ جہاں تک اس کی سمجھ اور اس کا علم تھا۔ اس کے موافق اس نے فتویٰ دیا ہے۔ غرض مباہلہ صرف ایسے لوگوں سے ہوتا ہے۔جو اپنے قول کی قطعی اور یقین پر بنا رکھ کر دوسرے کو مفتری اور زانی وغیرہ قرار دیتے ہیں۔
پس انا نحن فیہ میں مباہلہ اس وقت جائز ہوگا۔ کہ جب فریق مخالف یہ اشتہار دیں کہ ہم اس مدعی کو اپنی نظر میں اس قسم کا مخطی نہیں سمجھتے کہ جیسے اسلام کے فرقوں میں مصیب بھی ہوتے ہیں اور مخطی بھی اور بعض فرقے بعض سے اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ہم یقین کلی سے اس شخص کو مفتری جانتے ہیں اور ہم اس بات کے محتاج نہیں کہ یہ کہیں کہ امر متنازعہ فیہ کہ اصل حقیقت خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ بلکہ یقینا اس پیشگوئی کی سب اصل حقیقت ہمیں معلوم ہوچکی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قدر اقرار کردیں۔ توپھرکچھ ضرورت نہیں کہ علماء کا مشورہ اس میں لیا جائے وہ مشورہی نقصان علم کی وجہ سے طلب نہیںکیا گیا۔ صرف اتمام حجت کی