پھر تمام مسلمانوں کے ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں کی نظر میں اس سے بہتر کوئی حکمت نہیں ہو گی کہ ان تمام جزئیات مختلف میں مباہلہ کرایا جائے۔ تاایک ہی مرتبہ سب مسلمانوں پر قیامت آجائے۔ کیونکہ کوئی فرقہ کسی خطا کی وجہ سے ہلاک ہو جائے گااور کوئی کسی خطا کے سبب سے مورد عذاب و ہلاکت ہوگا۔ وجہ یہ کہ جزئی خطا سے تو کوئی فرقہ بھی خالی نہیں۔ اب میں یہ بیان کرتا چاہتا ہوں کہ کس صورت میں مباہلہ جائز ہے۔ سو واضح ہو کہ وہ صورت میں مباہلہ جائز ہے۔ (۱)اوّل اس کافر کے ساتھ جو یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ مجھے یقینا معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں اور جو کچھ غیراللہ کی نسبت خدائی کی صفتیں میں مانتاہوں وہ یقینی امر ہے۔ (۲)دوم اس ظالم کے ساتھ جو ایک بے جا تہمت کسی پر لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً ایک مستورہ کو کہتا ہے۔ کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کا زنا کرتے دیکھا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شراب خور ہے اور بچشم خود اس کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ سوا س حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں بلکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بنا رکھ کر ایک مومن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔ جیسے مولوی اسمٰعیل صاحب نے کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ میرے ایک دوست کی چشم دید بات ہے۔ کہ مرزا غلام احمد یعنی یہ عاجز پوشیدہ