جو قطع نظر مصیبت یا محظی ہونے کے صحت نیت اور اخلاص اور صدق پر مبنی ہیں۔مباہلہ جائز ہوتا اور خداتعالیٰ ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے محظی پر عندالمباہلہ عذاب نازل کرتا تو آج تک تمام انسان کا روئے زمین سے خاتمہ ہو جاتا۔ کیونکہ کچھ شک نہیں کہ مباہلہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو فریق حق پر نہیں اس پر بلا نازل ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اجتہادی امور میں مثلاً کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی میں شافعی حق پر اور کسی میں اہل حدیث اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کی جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں اورخداتعالیٰ اس جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کانتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال تجویز کرتا پڑتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اورمسلمین ہے۔ کیوں کر جائز ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ اگر اس کے نزدیک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ جائز ہوتا تو وہ ہمیں یہ تعلیم نہ دیتا ربنا اغفرلنا والا خواننا یعنی اے خداہماری خطا معاف کراور ہمارے بھائیوں کی خطا بھی عفوفرما۔ بلکہ لا یُصب اور محظی کا تصفیہ مباہلہ پر چھوڑتا اور ہمیں ہر ایک جزئی اختلاف کی وجہ سے مباہلہ کی رغبت دیتا لیکن ایسا ہر گز نہیں اگر اس امت کے باہمی اختلافات کاعذاب سے فیصلہ ہوناضروری ہے تو