دوںگااور خود اس عاجز کا ارادہ ہے کہ جو امور ہندوؤں کے ویدسے بطور مقابلہ طلب کئے گئے ہیں۔ وہ بطور حق براہین ہیں۔ ابلاغ پائیں۔ اور اللہ جلشانہ‘ توفیق بخشے کہ تاہم ان سب امور کو انجام دے سکیں۔ بخدمت چودھری محمد بخش صاحب وجمیع احباب کو سلام مسنون پہنچے اورجس وقت آپ قادیان تشریف لاویں ایک شیشی چٹنی سرکہ کی ضرور ساتھ لاویں۔
نوٹ:یہ مکتوب حضرت کے اپنے قلم سے لکھا ہوا ہے مگر آپ حسب معمول اس پر اپنا نام نہیں لکھ سکے۔ تاریخ بھی درج نہیں سلسلہ خطوط سے دسمبر ۱۸۸۶ء کا پایا جاتا ہے ۔عرفانی
(۴۵)پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘۔
آج آپ کا کارڈ مجھ کو ملا میں نے سنا ہے مولوی صاحب نے کچھ ریویو رسالہ سرمہ چشم آریہ پر لکھا ہے ابھی میرے پاس پہنچا۔ سنا جاتا ہے کہ ابھی وہ رسالہ چھپنا ہے۔ جب میرے پاس پہنچے شاید پندرہ روز تک پہنچے توا نشاء اللہ آپ کی مقرر یادہانی سے بھیج دوں گا۔ چودھری صاحب کو سلام مسنون پہنچے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۲۰؍دسمبر ۱۸۸۶ء
والسلام
(۴۶) پوسٹ کارڈ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مخدومی مکرمی منشی رستم علی خان صاحب سلمہ تعالیٰ۔ بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آزبند اور قند جو پہلے آنمکرم نے بھیجے تھے۔ سب پہنچ گئے ہیں۔ امید ہے کہ آج یا کل شیر مال بھی پہنچ جائے گا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ رسالہ سراج منیر کا مضمون تو اب تیار ہے۔ مگر اس کی طبع کے لئے تجویز کر رہا