تحریری بحث ہو رہی ہے۔ ابھی تمہیدی مقدمات میں بحث چلی آتی ہے۔ فریقین کی تحریریں پانچ جزو تک پہنچ چکی ہیں۔ ان کی طرف سے سوال یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت کو واجب العمل سمجھتے ہو یا نہیں اس طرح سے جو واقعی اور تحقیقی جواب ہے دیا گیا ہے لیکن اس بحث کو انہوں نے بہت طول دے دیا ہے اور اس طرف سے بھی مناسب سمجھا گیا ہے کہ جہاں تک طول دیتے جائیں اس کا شافی وکافی جواب دیا جاوے۔ خدا جانے یہ بحث کب اور کس وقت ختم ہو۔ اب مجھے زیادہ تر خیال آپ کی طبیعت کی طرف ہے اور کسی بات کے لکھنے کی طرف دل توجہ نہیں کرتا۔ امید کہ جہاں تک جلد ممکن ہو حالت مزاج سے مسرور الوقت فرماویں۔ باقی سب خیریت ہے۔ ازالہ اوہام ابھی طبع ہو کر نہیں آیا۔ والسلام خاکسار غلام احمد از لودہانہ محلہ اقبال گنج ۲۲؍ جولائی ۱۸۹۱ء مکتوب نمبر۷۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پارسل مرسلہ آنمکرم جس میں مشک اور تھا پہنچا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ کل مولوی محمد حسین صاحب کی بحث کا خاتمہ ہو گیا۔ آخر حق بات کے سننے سے مولوی محمد حسین کی قوت سبعیہ بڑے زور سے ظہور میں آئی۔ اگر یہ عاجز اپنی جماعت کے ساتھ جلد تر اس جگہ سے باہر نہ آتا تو احتمال فساد تھا۔ درحقیقت ان کو اشتعال کا سبب یہ ہوا کہ وہ اعتراضات کردہ سے ساکت اور لاجواب ہوگئے اور بحالت لاجواب ہونے کے بجز قوت غضبی سے کام لینے کے اور کیا ان کے