شہادت نہیں دیتا کہ میں ان کے لئے جناب الٰہی میں دعا کروں۔ گو یہ عاجز خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو غیر محمدود جانتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ ہر ایک قدرتی کام وابستہ بادقات ہے اور جب کسی امر کے ہو جانے کا وقت آتا ہے تو اس امر کے لئے دل میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور امید بڑھ جاتی ہے اور اب ایسی باتوں کی طرف جو ڈاکٹر صاحب کا منشاء ہے کہ کوئی مردہ زندہ ہو جائے یا کوئی مادر زاد اندھا اچھا ہو جائے پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں اس بات کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے کہ کوئی امر انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو خواہ مردہ زندہ ہو۔ اور خواہ زندہ مر جائے۔ یہی بات پہلے بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں لکھی تھی کہ آپ صرف یہی شرط رکھیں کہ ایسا امر ظاہر ہو کہ جو انسانی طاقتوں سے برتر ہو اور کچھ شک نہیں کہ جو امر انسانی طاقتوں سے برتر ہو وہی خارق عادت ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے خواہ نخواہ مردہ وغیرہ کی شرطیں لگا دی ہیں۔ اعجازی امور اگر ایسے کھلے کھلے اور اپنے اختیار میں ہوتے تو ہم ایک دن میں گویا تمام دنیا سے منوا سکتے ہیں لیکن اعجاز میں ایک ایسا امر مخفی ہوتا ہے کہ سچا طالب حق سمجھ جاتا ہے کہ یہ امر منجانب اللہ ہے اور منکر کو عذرات رکیکہ کرنے کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا میں خدا تعالیٰ ایمان بالغیب کی حد تو کوڑنا نہیں چاہتا۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردے زندہ کئے اور وہ مردے دوزخ یا بہشت سے نکل کر کل اپنا حال سناتے ہیں اور اپنے بیٹوں اور پوتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم تو عذاب و ثواب کا کچھ دیکھ آئے ہیں ہماری گواہی مان لو کہ یہ خیالات لغو ہیں بیشک خوارق ظہور میں آتے ہونگے۔ مگر اس طرح نہیں کہ دنیا قیامت کا نمونہ بن جائے