استقامت بخشے۔ یہ عاجز دعا میں جمیع مومنین بالخصوص اپنے خاص احباب کو یاد رکر لیتا ہے اور فی الحقیقت بڑا مقصود اعظم خوشنودی حضرت مولیٰ کریم ہے جس کے حصول سے مراد دارین حاصل ہو جاتے ہیں۔ سو مومن کی یہی علامت ہے کہ وہ کاہل نہ ہو جائے اور اگر ہمیشہ نہ ہو سکے تو کبھی کبھی برخلاف مرادت نفس کر گزرے تا مخالفت خطوط نفس گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو جائے کہ خد اوند کریم نکتہ نواز ہے اور ایک نیک خیال کا اجر بھی ضائع نہیں کرتا۔ اخویم مکرم میر عباس علی شاہ صاحب کی خدمت میں ایک خط لودہانہ بھیجا گیا ہے۔ رسالہ اگر براہین احمدیہ کی تقطیع پر ہو گا تو اس کے چھپنے کا خرچ بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس تقطیع کے زیادہ صفحات پتھر نہیں چھپ سکتے۔ اسی طرح واقف لوگ کہتے ہیں۔ انشاء اللہ موقع پر آپ کو اگر خد اتعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ بخدمت چوہدری محمد بخش صاحب سلام مسنون۔
غلام احمد
یکم دسمبر ۱۸۸۵ء
نوٹ۔ اس مکتوب میں جس رسالہ کاذکر ہوا ہے وہ سراج منیر ہے چودہر ی رستم علی صاحب نے جیسا کہ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے عرض کیا تھاکہ یہ رسالہ بھی براہین کی تقطیع پر طبع ہو اور انہوں نے اس میں ثواب کے لئے شریک ……ہونے کے لئے عرض کیا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا استغنا اور توکل علی اللہ ملاخطہ ہو۔ آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو اطلاع دی جائے گی۔ اس سے آپ کے اخلاص اور صاف دلی پر بھی روشنی پڑتی ہے اگر محض روپیہ جمع کرنا مقصود ہوتا تو لکھ دیتے کہ روپیہ بھیج دو۔ مگر آپ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔